قرات حفص عن عاصم کے علاوہ دیگر تمام قراات کو عجم کا فتنہ
باور کراتے ہوۓ غامدی صاحب جلیل القدر تابعی ابوعبدالرحمن السلمی کے بارے میں
رقمطراز ہیں:
یہ وہی بزرگ ہیں جنھوں نے مختلف قراء توں کا شیوع دیکھ کر لوگوں کی تنبیہ کے لیے فرمایا تھا
کانت قراء ۃ أبی بکر و عمر و عثمان و زید بن ثابت والمھاجرین والأنصار واحدۃ، کانوا یقرؤن القراء ۃ العامۃ، وھی القراء ۃ التی قرأھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی جبریل مرتین فی العام الذی قبض فیہ، وکان زید قد شھد العرضۃ الأخیرۃ، وکان یقرئ الناس بھا حتی مات.(البرہان، الزرکشی ۱/ ۳۳۱)
"ابوبکر و عمر، عثمان، زید بن ثابت اور تمام مہاجرین و انصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔ وہ قراء ت عامہ کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ یہ وہی قراء ت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریل امین کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اخیرہ کی اِس قراء ت میں زید بن ثابت بھی موجود تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اِسی کے مطابق قرآن پڑھاتے رہے۔‘‘ (میزان ص، ٢٨-٢٩ / ماہنامہ اشراق، جنوری ٢٠١٥)
حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کا اس قول کو اس سیاق میں پیش
کرنا تو غلط ہے ہی خود یہ قول بے سند بھی ہے. امام زرکشی سے قبل امام بغوی نے شرح
السنہ میں بھی یہ قول نقل کیا ہے لیکن سند ذکر نہیں کی. اس روایت کا بے سند ہونا
غامدی صاحب کے ہی ایک شاگرد مولانا عمار خان ناصر نے بھی بیان کیا ہے. دیکھیے،
عمار صاحب کا مضمون، "مصحف عثمانی کی تدوین - چند تحقیق طلب سوالات"
مجلہ تحقیقات اسلامی، علیگڑھ، اکتوبر-دسمبر ٢٠١٥، ص ٢٩-٣٠
مکمل سند تو اس روایت کسی معروف مصدر میں منقول نہیں البتہ
مقریزی نے السلمی رحمہ الله علیہ سے آگے کی کچھ سند کا ذکر کیا ہے. مقریزی نے اس
قول کی سند پر جو اضافہ کیا ہے وہ انتہائی معنی خیز ہے اور غامدی صاحب نے اس قول
کو جو معنی پہنائے ہیں اس کی غلطی کو واضح کرتا ہے. مقریزی لکھتے ہیں:
وقال أبو عمر البزار حفص بن سليمان بن المغيرة، عن عاصم بن أبي النجود، وعطاء بن السائب، ومحمد بن أيوب الثقفي، وابن أبي ليلى، عن عبد الرحمن السلمي أنه قال: كانت قراءة أبي بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وزيد بن ثابت، والمهاجرين، والأنصار رضي اللَّه عنهم جميعا واحدة.
گویا حفص بن سلیمان (متوفی: ١٨٠ ہجری ) بتا ہے ہیں کہ (١)
قرات میں ان کے استاد عاصم متوفی ١٢٨ ہجری ، (٢) عطا بن السائب متوفی ١٣٦ ہجری،
(٣) محمد بن ایوب الثقفی، اور (٤) قراه سبعہ میں سے دو ائمہ (حمزہ الزیات اور کسائی)
کے استاد (محمد بن عبد الرحمن) ابن ابی لیلی متوفی ١٤٨ ہجری، سب نے (ابو) عبد
الرحمن السلمی متوفی ٧٤ ہجری سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ابو بکر،
عمر، عثمان، علی، زید بن ثابت، اور مہاجرین و انصار سب کی قرات ایک ہی تھی."
(إمتاع الأسماع، جلد ٤، ص ٢٩٠)
یہاں اس قول کے راوی قراتوں میں باہم اختلاف رکھنے والے ایک
ہی طبقہ کے حضرات ہیں لہذا ان کی اپنی ہی روایت کو بنیاد بنا کر ان میں سے ایک کی
قرات کو قول کا مصداق اور دوسروں کی قراتوں کو عجم کا فتنہ باور کرانا علمی بد دیانتی
کے قبیل سے ہے. حقیقت یہ ہے کہ معروف قراتوں کی ان ناموں کے تحت تدوین اور علم
قرات کی مروجہ اصطلاحات کے طے پا جانے سے قبل کا یہ قول حجت ہو بھی تو اس سے مراد
ان غیر مستند 'قراتوں' کا انکار ہو گا جو جمع عثمانی سے برسوں بعد بھی بعض صحابہ
سے منسوب چلی آ رہی تھیں. (ایسی قراتوں کی حقیقت سے متعلق وضاحت کیلئے دیکھیے راقم
کا مضمون "مصاحفِ عثمانی کی تدوین -- اشکالات کا حل" مجلہ تحقیقاتِ
اسلامی، علیگڑھ، اپریل - جون ٢٠١٩)