2019-06-10

"میزان" میں منقول بے سند اور ضعیف روایات (٢) 'قرات عامہ' اور ابو عبد الرحمن السلمی


قرات حفص عن عاصم کے علاوہ دیگر تمام قراات کو عجم کا فتنہ باور کراتے ہوۓ غامدی صاحب جلیل القدر تابعی ابوعبدالرحمن السلمی کے بارے میں رقمطراز ہیں:

 یہ وہی بزرگ ہیں جنھوں نے مختلف قراء توں کا شیوع دیکھ کر لوگوں کی تنبیہ کے لیے فرمایا تھا
کانت قراء ۃ أبی بکر و عمر و عثمان و زید بن ثابت والمھاجرین والأنصار واحدۃ، کانوا یقرؤن القراء ۃ العامۃ، وھی القراء ۃ التی قرأھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی جبریل مرتین فی العام الذی قبض فیہ، وکان زید قد شھد العرضۃ الأخیرۃ، وکان یقرئ الناس بھا حتی مات.(البرہان، الزرکشی ۱/ ۳۳۱)
"ابوبکر و عمر، عثمان، زید بن ثابت اور تمام مہاجرین و انصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔ وہ قراء ت عامہ کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ یہ وہی قراء ت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریل امین کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اخیرہ کی اِس قراء ت میں زید بن ثابت بھی موجود تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اِسی کے مطابق قرآن پڑھاتے رہے۔‘‘ (میزان ص، ٢٨-٢٩ / ماہنامہ اشراق، جنوری ٢٠١٥)

حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کا اس قول کو اس سیاق میں پیش کرنا تو غلط ہے ہی خود یہ قول بے سند بھی ہے. امام زرکشی سے قبل امام بغوی نے شرح السنہ میں بھی یہ قول نقل کیا ہے لیکن سند ذکر نہیں کی. اس روایت کا بے سند ہونا غامدی صاحب کے ہی ایک شاگرد مولانا عمار خان ناصر نے بھی بیان کیا ہے. دیکھیے، عمار صاحب کا مضمون، "مصحف عثمانی کی تدوین - چند تحقیق طلب سوالات" مجلہ تحقیقات اسلامی، علیگڑھ، اکتوبر-دسمبر ٢٠١٥، ص ٢٩-٣٠

مکمل سند تو اس روایت کسی معروف مصدر میں منقول نہیں البتہ مقریزی نے السلمی رحمہ الله علیہ سے آگے کی کچھ سند کا ذکر کیا ہے. مقریزی نے اس قول کی سند پر جو اضافہ کیا ہے وہ انتہائی معنی خیز ہے اور غامدی صاحب نے اس قول کو جو معنی پہنائے ہیں اس کی غلطی کو واضح کرتا ہے. مقریزی لکھتے ہیں:

وقال أبو عمر البزار حفص بن سليمان بن المغيرة، عن عاصم بن أبي النجود، وعطاء بن السائب، ومحمد بن أيوب الثقفي، وابن أبي ليلى، عن عبد الرحمن السلمي أنه قال: كانت قراءة أبي بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وزيد بن ثابت، والمهاجرين، والأنصار رضي اللَّه عنهم جميعا واحدة.

گویا حفص بن سلیمان (متوفی: ١٨٠ ہجری ) بتا ہے ہیں کہ (١) قرات میں ان کے استاد عاصم متوفی ١٢٨ ہجری ، (٢) عطا بن السائب متوفی ١٣٦ ہجری، (٣) محمد بن ایوب الثقفی، اور (٤) قراه سبعہ میں سے دو ائمہ (حمزہ الزیات اور کسائی) کے استاد (محمد بن عبد الرحمن) ابن ابی لیلی متوفی ١٤٨ ہجری، سب نے (ابو) عبد الرحمن السلمی متوفی ٧٤ ہجری سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ابو بکر، عمر، عثمان، علی، زید بن ثابت، اور مہاجرین و انصار سب کی قرات ایک ہی تھی." (إمتاع الأسماع، جلد ٤، ص ٢٩٠)

یہاں اس قول کے راوی قراتوں میں باہم اختلاف رکھنے والے ایک ہی طبقہ کے حضرات ہیں لہذا ان کی اپنی ہی روایت کو بنیاد بنا کر ان میں سے ایک کی قرات کو قول کا مصداق اور دوسروں کی قراتوں کو عجم کا فتنہ باور کرانا علمی بد دیانتی کے قبیل سے ہے. حقیقت یہ ہے کہ معروف قراتوں کی ان ناموں کے تحت تدوین اور علم قرات کی مروجہ اصطلاحات کے طے پا جانے سے قبل کا یہ قول حجت ہو بھی تو اس سے مراد ان غیر مستند 'قراتوں' کا انکار ہو گا جو جمع عثمانی سے برسوں بعد بھی بعض صحابہ سے منسوب چلی آ رہی تھیں. (ایسی قراتوں کی حقیقت سے متعلق وضاحت کیلئے دیکھیے راقم کا مضمون "مصاحفِ عثمانی کی تدوین -- اشکالات کا حل" مجلہ تحقیقاتِ اسلامی، علیگڑھ، اپریل - جون ٢٠١٩)

2019-01-22

آزمائش بمع عربی متن

اردو متن
عربی متن div ٹیگ میں
اردو متن کے درمیان عربی متنکا حصہ span ٹیگ کے ساتھ

عربی متن پیراگراف ٹیگ میں

2019-01-20

"میزان" میں منقول بے سند اور ضعیف روایات (١) عمرؓ اور جاہلی شاعری


تدبّر ِقران کے مبادی کے بیان میں جاہلی شاعری کی اہمیت کو بتاتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:
"یہی بات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے منبر سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی ہےیا أیھا الناس،علیکم بدیوانکم، شعر الجاھلیۃ، فإن فیہ تفسیرکتابکم ومعاني کلامکم.(الجامع لاحکام القرآن، القرطبی۱۰  /۱۱۰) 
"لوگو، تم اپنے دیوان،یعنی اہل جاہلیت کے اشعار کی حفاظت کرتے رہو، اِس لیے کہ اُن میں تمھاری کتاب کی تفسیر بھی ہے اورتمھارے کلام کے معانی بھی۔" (میزان، صفحہ ١٩)
اس روایت کے بارے میں واضح رہے کہ ان الفاظ کے ساتھ اور سیدنا عمرؓ بن خطاب سے منسوب سے روایت کی کوئی مکمل سند معروف مصادر میں منقول نہیں. امام قرطبی ؒسے پہلے الثعلبيؒ، زمخشریؒ اور ابن عطیہؒ     نے بھی یہ روایت اسی طرح نقل کی ہے بغیر اسناد کے نقل کی ہے. دو ماخذ البتہ اس روایت کی سند کی بابت کچھ اشارے دیتے ہیں؛

 ابو الحسن الواحدیؒ (المتوفى: ٤٦٨ ہجری )  ذکر کرتے ہیں کہ یہ روایت سعید بن المسیبؒ نے سیدنا عمرؓ سے بیان کی ہے،  لیکن خود  ابن المسیبؒ تک سند انہوں نے بیان نہیں کی (التفسيرالبسيط، ١/٤٠١-٤٠٢). جبکہ قسطلانیؒ (المتوفى: ٩٢٣ہجری) لکھتے ہیں، "وروي بإسناد فيه مجهول عن عمر ..." (عمر ؓسے ایک ایسی سند سے روایت ہے جس میں مجہول راوی ہے کہ ...." (إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري، ٧/١٩٦)

چنانچہ واضح ہوا کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے.

2019-01-16

وصیت کی قانونی تحدید، قران حکیم، حدیث، اجماع اور غامدی مؤقف

غامدی صاحب کے بے شمار شواذ میں سے ایک وصیت کی عدم تحدید بھی ہے. جمیح امت کے برخلاف موصوف کا فرمان ہے کہ :
"قرآن کے الفاظ میں کسی تحدید کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علی الاطلاق فرمایا ہے کہ یہ تقسیم مرنے والے کی وصیت پوری کرنے کے بعد کی جائے گی۔ زبان و بیان کے کسی قاعدے کی رو سے اِس اطلاق پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو روایت اِس معاملے میں نقل ہوئی ہے، اُس کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ آپ کے ایک صحابی نے آپ کے سامنے اپنی اِس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ مرنے کے بعد وہ اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دینا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ زیادہ ہے، آدمی کے پاس مال ہو تو اُسے اپنے وارثوں کو محتاج چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے۔اُنھوں نے دو تہائی اور پھر آدھا مال دینے کے لیے پوچھا۔ اِس پر بھی آپ نے وہی بات فرمائی۔ اُنھوں نے پوچھا کہ ایک تہائی دے دوں۔ آپ نے فرمایا: یہی بہت ہے۔* ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ خاص صورت حال میں ایک خاص شخص کے فیصلے پر آپ کا تبصرہ ہے۔ اِس کا کسی قانونی تحدید سے کوئی تعلق نہیں ہے۔" (مقامات، ص ١٥٧)
اس پر چند معروضات پیش خدمت ہیں:
(١) اول تو خود قران حکیم نے تقسیم وراثت سے قبل وصیت کے پورا کرنے کا حکم بیان کرتے ہوۓ "غیر مضار - بغیر کسی کو ضرر پہنچائے" (النساء، آیت ١٢) کی شرط رکھی ہے. غامدی صاحب اس تنبیہ اور حدیث میں مذکور ایک تہائی کی قدغن کے تعلق سے واقف ہیں لیکن اس کو قانونی تسلیم کرنے سے ججھکتے ہیں. سورہ النساء آیت ١١ کے تحت لکھتے ہیں:
"قرآن نے اِس کے ساتھ آگے غَیْرَ مُضَآرٍّ کی شرط لگا دی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ وصیت اتنی ہونی چاہیے جس سے وارثوں کی حق تلفی نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر نصیحت فرمائی ہے کہ یہ تہائی مال تک محدود رہے تو بہتر ہے۔" (البیان)
(٢) غامدی صاحب کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس وصیت کی ایک تہائی تک تحدید پر دال صرف حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی روایت ہے. عرض ہے کہ اس مسئلہ میں اگرچہ اصل یہی ہے لیکن اس موضوع سے متعلق ایک اور مرفوع حدیث بھی ہے کہ رسول الله (ﷺ) نے فرمایا: "إن الله تصدق عليكم، عند وفاتكم، بثلث أموالكم، زيادة لكم في أعمالكم" (الله نے تمہاری وفات کے وقت تم پر تمہارا ایک تہائی مال صدقہ فرمایا ہے تا کہ اس کے ذریعہ تم اپنی نیکیوں میں اضافہ کر سکو.)
یہ حدیث (١) ابو ہریرہؓ، (٢) ابو درداءؓ، (٣) معاذ بن جبلؓ، (٤) ابو بکر صدیقؓ، اور (٥) عبید بن خالدؓ سے مختلف اسناد سے مروی ہے . گو ان سب روایات کی اسناد میں کچھ نہ کچھ ضعف ہے لیکن مجموعی طور پر قابل استدلال ہیں مزید یہ کہ ٢، ٣ اور ٥ میں ضعف بھی معمولی نوعیت کا ہے. تفصیل کیلیے دیکھیے شیخ البانیؒ کی کتاب ارواء الغلیل جلد ٦، ص ٧٦-٧٩ (حدیث ١٦٤١)
اسی طرح حضرت عبدالله بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول الله (ﷺ) نے فرمایا: "يا ابن آدم، اثنتان لم تكن لك واحدة منهما، جعلت لك نصيبا من مالك حين أخذت بكظمك ... -- اللہ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم دو چیزیں ایسی تھیں جن میں تیرا کچھ حق نہ تھا (اور وہ تجھے عطا کی گئیں) ایک یہ ہے کہ تیرا سانس روکتے وقت تیرے مال میں سے ایک حصّہ تیرے اختیار میں دے دیا ..." (سنن ابن ماجہ وغیرہ) یہی حدیث ابی قلابہ سے مرسلا بھی روایت ہے (حلیہ الاولیاء) گو اس میں ایک تہائی کی صراحت نہیں لیکن اس میں بھی وصیت کے ترکہ کے ایک حصّہ پر ہی لاگو ہونے کا بتایا گیا ہے.
(٣) صحابہ اور ان کے شاگردوں کی روایات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ انہوں میں نے حدیث میں مذکور تحدید کو قانونی و قطعی ہی سمجھا. چنانچہ خود غامدی صاحب کی ذکر کردہ حدیث کے راوی حضرت سعدؓ بن ابی وقاص رسول الله (ﷺ) کا فرمان نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ، "فأوصى الناس بالثلث، وجاز ذلك لهم – چنانچہ لوگ بھی تہائی کی وصیت کرنے لگے اور یہ ان کیلئے جائز قرار پایا" (صحیح بخاری، حدیث ٢٧٤٤)
اسی طرح کبار تابعین میں سے قاضی شریح ؒ فرماتے ہیں کہ "الثلث جهد وهو جائز - ایک تہائی بھی (ورثا کیلئے) سخت ہے لیکن وہ جائز ہے" (سنن دارمی، حدیث ٣٢٤٤)
ایسے ہی امام شعبیؒ ایک تہائی کو "منتهى الجامح – حد درجہ خود سری" قرار دیتے ہوۓ چوتھے یا پانچویں حصّے تک کی وصیت کرنے کی تلقین کرتے تھے. (سنن دارمی، حدیث )٣٢٤٢
چنانچہ حضرت ابو بکرؓ، عمرؓ، سمیت متعدد صحابہ کرام اور اسی طرح ان کے شاگردوں سے چوتھے، پانچویں، چھٹے ، بلکہ دسویں حصہ تک وصیت کرنے اور اسی کی تلقین کرنے کے اقوال منقول ہیں. لیکن ایک تہائی سے زائد کے جواز کا کوئی قول منقول نہیں. (سنن دارمی: من كتاب الوصايا: باب الوصية بأقل من الثلث / مصنف ابن ابی شیبه: كتاب الوصايا، باب: ما يجوز للرجل من الوصية في ماله)
ایک استثنائی صورت البتہ ذکر ہوئی ہے کہ اگر ورثا ایک تہائی سے زائد ترکہ پر کی گئی وصیت پر اعتراض نہ کریں تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے. اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو اس پر عمل جائز نہیں رہے گا. لیکن اس میں بھی کئی صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ متوفی کی زندگی میں راضی ہو جانے کے باوجود اس کی وفات کے بعد بھی اگر ورثا ایک تہائی سے زائد ترکہ کی وصیت کو ماننے سے انکار کر دیں تو اس کا ان کو اختیار ہے. یہ قول حضرت عبداللهؓ بن مسعود کے علاوہ تابعین میں سے متعدد صاحب فتویٰ تابعین سے منقول ہے جن میں ابراہیم نخعیؒ ، قاضی شریحؒ، حسن بصریؒ، حکم بن عتیبہؒ، حمادؒ، اور طاووسؒ جیسے اہل علم شامل ہیں. (دیکھیے، مصنف ابن ابی شیبه: كتاب الوصايا، باب: في الرجل يستأذن ورثته أن يوصي بأكثر من الثلث)
صحابہ و تابعین کے اسی متفقہ فہم کی وجہ سے امام جصاصؒ اس باب کی مذکور روایات کو درجہ تواتر میں رکھتے ہیں . لکھتے ہیں:
فهذه الأخبار الموجبة للاقتصار بالوصية على الثلث عندنا في حيز التواتر الموجب للعلم لتلقي الناس إياها بالقبول وهي مبينة لمراد الله تعالى في الوصية المذكورة في الكتاب أنها مقصورة على الثلث
"یہ روایات جو وصیت کو ایک تہائی مال تک تحدید کی موجب ہیں ہمارے نزدیک تواتر کا درجہ رکھتی ہیں جو موجب علم ہے کیونکہ اہل اسلام نے ان کو قبول کیا ہے اور یہ آیت وصیت میں الله کے حکم کی مراد کو بیان کرتی ہیں کہ وصیت تہائی مال تک محدود ہے. " (احکام القران : ٣/٣١)
یہ تمام تفصیلات وصیت کی تحدید سے متعلق ارشادات نبویہ (ﷺ) کی اصل نوعیت کو خود ان ارشادات کے مخاطب اور اول شاہدین اصحاب رسول اور پھر ان کے اپنے اجل اصحاب بلکہ ابتدائی صدیوں کے جمیع اہل اسلام کی تفہیم کی روشنی میں واضح کرتی ہیں اور ہم دیکھ چکے ہیں خود یہ نبوی ارشادات وصیت کے حوالے سے "غیر مضار " کی قرانی شرط کی وضاحت کرتے ہیں .
روایت سے منسلک حلقے تو حدیث رسول (ﷺ) سے اپنی علمی اور جذباتی وابستگی کی وجہ سے صرف اسی کے حوالے کو کافی شمار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صدر اول سے ہی وصیت کی تحدید امت کے عملی و تہذیبی تواتر کا حصّہ بھی رہی ہے لہذا ایک روایت کی تاویل اور یا دیگر روایات کی سند میں علل کی نشاندہی اس تحدید کے انکار کو کسی طور بھی معقول نہیں بنا سکتی . والله اعلم

2019-01-13

کیا سود دینا گناہ نہیں؟ سود سے متعلق ایک حدیث کی مختلف روایات اور غامدی تاویل پر ان کے اثرات

غامدی صاحب فرماتے ہیں "سود دینے پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا"  چناچہ سود لینے اور دینے والے دونوں پر زجر سے متعلق مشہور حدیث؛ "لعن النبي صلى الله عليه وسلم ... وآكل الربا وموكله" (ترجمہ: نبی (ﷺ) نے لعنت کی ... سود لینے والے پر اور سود دینے والے پر) کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس میں "موكله" سے مراد سود کھلانے/دینے والا نہیں بلکہ یہاں سودی کاروبار کے وکیل یعنی ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرنے والا مقصود ہے. (ماہنامہ اشراق، نومبر ٢٠١١، صفحہ ٢-٣)
عرض ہے کہ حدیث کی یہ تاویل درست نہیں. اول تو بعض روایات میں "آكل الربا وموكله" کی بجاۓ "آكل الربا، ومطعمه" کے الفاظ اے ہیں جس میں غامدی صاحب کی پیش کردہ تاویل کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی کہ لفظ "مطعم" کو کسی بھی طور پر وکالت اور ایجنٹی کے معنی نہیں دیے جا سکتے. دیکھیے:
-          مسند احمد حدیث ٩٨٠ وغیرہ (راوی سیدنا علیؓ)
-          مسند احمد حدیث ٤٢٨٤، ٤٤٠٣ وغیرہ (راوی سیدنا عبدالله بن مسعودؓ)
-          الاثار لابی یوسف حدیث ١٠٤٨ (مرسلا عن ابراہیم نخعی ؒ)
پھر بعض روایات کا اسلوب بھی غامدی صاحب کی تاویل کو غلط ظاہر کرتا ہے. جیسے مسند احمد اور سنن نسائی وغیرہ میں ہے کہ
عن عبد الله، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الواشمة والموتشمة، والواصلة والموصولة، وآكل الربا وموكله، والمحلل والمحلل له»
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے لعنت فرمائی ہے گودنے اور گودانے والی پر اور بالوں کو (بڑا کرنے کے لیے) جوڑنے والی اور جوڑوانے والی پر اور سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور حلالہ کرنے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر  .(سنن نسائی حدیث ٣٤١٦، / مسند احمد حدیث ٤٢٨٣)
اس روایت میں انداز بیان ہی واضح کر رہا ہے یہاں سود کھانے/لینے والے کے ساتھ سود کھلانے/دینے والے کا ذکر ہے جیسا کہ گودنے، جوڑنے، اور حلالہ میں ملوث ہر دو فریق کا ذکر ہے.
یہ درست ہے کہ عام قاعدہ کی روشنی میں اضطراری صورت حال میں اگر کوئی سود دے تو اس پر وہ بار نہ ہو گا جو سود لینے والے پر یا ایسے سود دینے والے پر ہو گا جو عام ضرورت کو مجبوری کا نام دے کر سودی معاملے میں شریک ہو جائے. لیکن صحیح مجبوری میں بھی سود دینے پر مجبور ہونے والے کو یہ پَٹّی پڑھانا کہ یہ معاملہ اپنی اصل میں ہی جائز ہے پَرلے درجے کی حماقت ہے.